بھرم

بھرم

شہر کی گلی گلی میں رونق ہے لیکِن دل کی بستی ویران اور اس کی گلیاں بے جان ہوچکی ہیں ۔کہیں کوئی چنگاری اُبھرتی نظر نہیں آتی ۔کہیں چین کا کوئی تصور دل کے آستانے میں سستانے نہیں آ رہا ۔اس شھر کا ہر شخص   دکھاوے کا نقاب پوش ہے۔کہ وہ بے حد خوش ہے لیکِن کوئی اس کے دل میں جھانک کر اس سے پوچھے کہ کیا وہ واقعی خوش ہے ۔مجھے تو اس بات کی بلکل بھی سمجھ نہیں آتی کہ وہ شخص کس کو دکھانے کی کوشش کرتا ہے

کہ وہ خوش ہے ؟ اُن لوگوں کو ،جن کو ذرا بھی فرق نہیں پڑتا کہ آیا کس پے کیا بیت رہی ہے ۔یہ زمانہ کچھ ایسا ہوا جا رہا ہے گویا محشر سے پہلے ہی محشر برپا ہو ۔جس شخص کو رات کو سکون کی نیند نہ آئے وہ بھلا کس لحاظ سے خود کو خوش کہ سکتا ہے ۔ ہر شخص بس اپنے آپ کو باور کرانے کی کاوشوں میں مگن ہے کہ وہ دنیا کا خوش ترین انسان ہے ۔لیکِن ایسا ہر گز نہیں ۔۔میرے لحاظ سے قسمت کا مالک وہ برخودار ہے جس کو رات کو سکون کی نیند آجائے ۔جس کی ہر صبح ایک نئے عزم ، نئے ولولے اور نئے جذبے کی نوید دے ۔جس کے پاس ہر صبح کچھ نیا کرنے کو ہو ۔جس نے کل کی باتوں کو ماضی کے صندوقچے میں ڈال کو اُسے دفن کر دیا ہو اور واپس کبھی اس قبر پر فاتحہ کے لیے بھی نا جائے ۔میرے لحاظ سے خوش وہ ہے جس کی صبح آنکھ کھلے تو اس کا ذہن سب بیتی باتوں سے آزاد ہو ۔جس کا ذہن تخیل میں نہ ہو بلکہ تخلیق کرے ہر وہ نظریہ جو اُسے زندگی سے ملاتا ہو ۔۔
کہتے ہیں کہ زندگی چار دن کی ہوتی ہے وہ چار دن بھی اس کے جینے والے عجیب انداز سے گزارتے ہیں وہ ایک دن کا سانحہ اگلے تین دن یاد کرتا رہتا ہے۔اور اپنے ماضی کے لیے اپنے مستقبل کو ٹھوکر مار دیتا ہے 

بھرم ۔۔۔۔۔۔
احسان اللہ